یہ ایک یونانی دیومالائی کہانی ہے۔ نرگس (Narcissus)نام کا ایک خوبصورت ترین دیوتا خود اپنی ہی محبت میں مبتلا ہو گیا، اسکے چاہنے والے اس پر مرتے تھے مگر اسے اپنے سوا کوئی اور پسند نہ تھا اس نے اپنی تمام محبتوں کو مسترد کر دیا تو پھر انتقام کی دیوی کو جوش آ گیا اور اس نے نرگس کے تکبر، اپنی ذات سے حد سے بڑھی ہوئی محبت پر انتقام لے لیا، نرگس کو خود اپنے ہی سائے، اپنی ہی شبیہ سے پیار ہو گیا اسے ہر طرف وہ خود ہی دِکھتا تھا لیکن وہ اس سائے اور شبیہ کو پا نہیں سکتا تھا، خود سے جنون کی حد تک محبت نے اسے جنونی بنا دیا اور ایک دن خود کو پانے کی خاطر پانی میں خود اپنی ہی شبیہ کو حاصل کرنے کیلئے دریا میں ایسی بازی لگائی کہ جان جاتی رہی، نرگس دیوتا کی موت کے بعد نشانی کے طور پر نرگس کا خوبصورت پودا پیدا ہوا، جس کے خوشبودار پھول آج بھی دل کو لبھاتے ہیں۔

بظاہر یہ ایک سیدھی سادی دیومالائی کہانی ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ اس کہانی کے اندر انسانی نفسیات کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ نرگس کی خود سے محبت کو نرگسیت کا نام دیا جاتا ہے اور علم نفسیاست میں نرگسیت پر بہت ہی ریسرچ کی گئی ہے۔ جدید علم نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ نے نرگسیت کو ایک نفسیاتی بیماری قرار دیتے ہوئے کہا کہ NPD یعنی (Narcissistic personality disorder) کا شکار انسان خود کو عظیم ترین سمجھتا ہے، اسے اپنے امیج کی اپنی ذات سے بھی زیادہ فکر ہوتی ہے، وہ اپنے عوامی امیج کیلئے اپنی جان تک دے سکتا ہے اسے ہر وقت تعریف و توصیف کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرائڈ کے بقول نرگسیت کا شکار لوگ کسی سے بھی ہمدردی نہیں رکھتے خود پسندی انہیں دوسروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کرنے ہی نہیں دیتی۔

کارلاگرائمز کا مشہور مقولہ ہے کہ نرگسیت کا شکار لوگ خود کو مظلوم اور ہر لحاظ سے معصوم سمجھتےکرتے ہیں، وہ دوسروں کے سچ بولنے پر ناراض ہوتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ جو اندھیرے میں ہوتا ہے وہ ایک دن روشنی میں آنا ہوتا ہے، ایک وقت آتا ہے جب چھپانے کے باوجود ان لوگوں کا اصلی رنگ اور مرض سامنے آ کر رہتا ہے۔ بیسویں صدی کے نامور مفکر اور شاعر ٹی ایس ایلیٹ کہتے ہیں کہ آج کی دنیا کو آدھا نقصان وہ پہنچاتے ہیں جو خود کو اہم ترین سمجھتے ہیں۔ مارٹی روبن کے مطابق انسانی زندگی میں آدھے دکھ خود کو آئینوں میں دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ دیوتا نرگس پانی میں اپنے عکس کو بار بار دیکھ کر خوش ہوتا تھا نرگسیت کا شکار لوگ بھی آئینوں کے شیدائی ہوتے ہیں۔

بینڈی لی کا قول ہے کہ ’’ لوگ حقیت سے اتنے دور ہو جاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مرض ان کیلئے خطرناک ہو جاتا ہے‘‘۔ الزبتھ بودن کا خیال ہےکہ ’’نرگسی لوگ اس شخص پر بہت مہربان ہوتے ہیں جو زندگی اور معاملات کو صرف ان کی نظر سے دیکھے‘‘۔ ڈبلیو ایچ ایڈن کا مقولہ ہے ’’نرگس کو اپنے سائے سے اس لئے محبت نہیں ہو گئی تھی کہ وہ خوبصورت تھا اسے اس لئے محبت ہوئی تھی کیونکہ وہ اس کا اپنا سایہ تھا‘‘۔یونانی تہذیب عروج تک پہنچی اس تہذیب نے نہ صرف نرگس جیسی دیو مالائی کہانیوں کو ترتیب دیا بلکہ آج تک عظمت کا مینار سمجھے جانے والے حقیقی کردار بھی تخلیق کئے۔ افلاطون، سقراط اور ارسطو جیسے مفکر اور سکندر اعظم جیسے جہانبان یونانی دور کی یادگار ہیں۔ ہر کمالے را زوالے کے مصداق یونانی تہذیب بھی زوال کا شکار ہوئی، اس زوال کے تھوڑے ہی عرصے بعد رومی تہذیب کا احیا ہوا اور پھر یہ تہذیب عظیم سلطنت روما کہلائی۔ رومی تہذیب، یونانی تہذیب کے کندھوں پر چڑھ کر یعنی اس سے سب سیکھ کر آگے بڑھی۔ دیومالائی کہانیاں ہوں، فکر ہو یا دنیا کو فتح کرنے کا جذبہ، یہ سب کچھ یونانی تہذیب سے سیکھا گیا۔ نرگس کی یونانی دیومالائی کہانی کو روم میں ایک نیا رنگ دیا گیا۔ روم کے مشہور شاعر اووڈ نے ’’ارتقائی تبدیلی‘‘ یا میٹامارفسس (Metamorphosis) کے نام سے نرگس کی کہانی لکھی (دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانز کافکا نے بھی اسی نام سے ناول لکھا او ر انتظار حسین نے اردو میں ’’کایا کلپ‘‘ کے نام سے یادگار افسانہ لکھا) اووڈ نے نرگس کی دیومالائی کہانی میں نرگس سے محبت کرنے والی پری Echo یعنی گونج کو متعارف کروایا، گونج پر دیوتائوں کا پہلے سے یہ عذاب نازل تھا کہ وہ خود کچھ بول نہیں سکتی تھی وہ صرف دوسروں کے بولے ہوئے فقروں کو دھرا سکتی تھی، اس رومن کہانی کے مطابق گونج کو نرگس سے شدید محبت ہو جاتی ہے مگر نرگس گونج کی محبت کو بری طرح مسترد کر دیتا ہے اور یوں گونج دنیا سے مایوس ہو کر رخصت ہو جاتی ہے البتہ آج تک اس کی آواز سنی جا سکتی ہے۔

نرگس اور گونج کے کردار دراصل خود پسند نرگس اور اس کے چاہنے والے یعنی گونج کے درمیان رشتے کی وضاحت کرتے ہیں، نرگس کو اپنے چاہنے والوں سے پیار نہیں ہو سکتا ہاں اگر وہ ہو بہو اس کے تصورات پر چلیں تو وہ ان پر مہربان ہو سکتا ہے، دوسری طرف گونج کے کردار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نرگس کی خود پسندی اور تکبر کے باعث اس کے سامنے گونج یا اس کےکسی اور چاہنے والے کی آواز ہی نہیں نکلتی اگر کوئی آواز نکلتی بھی ہے تو وہ صرف نرگس کی آواز کی گونج ہےجو بار بار سنائی دیتی ہے، گونج یا بے چارے پرستاروں کی تو اپنی آوازہی کوئی نہیں۔ نرگس کے دیومالائی کردار اور آج کی دنیا میں نرگسیت کے شکار لوگوں کی نفسیاتی تحلیل (Psychoanalysis)بھی کی جاتی ہے۔ مشہور نفسیات دان جیکس لوکن نے آئینہ منزل (Mirror Stage) میں نرگس کی خود پسندی کو بیان کیا ہے کہ نرگس کی سایوں، شبیہوں اور آئینوں سے محبت ایک طرف اسے خود پسند جنونی بنا دیتی ہے تو دوسری طرف وہ حقائق سے دور ہو جاتا ہے اور پھر وہ ایسے آئیڈیل کو پانے کی کوشش کرتا ہے جو کبھی پایا ہی نہیں جا سکتا، جب وہ اپنی منزل اور اپنا آئیڈیل حاصل نہیں کر پاتا تو تنہائی اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔

ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ نرگسیت کے شکار بہت بڑےبڑے لوگ ہوتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں آپ کو ایڈولف ہٹلر، نپولین بونا پارٹ اور سٹالن جیسے نرگسی ملیں گے، آج کی دنیا میںڈونلڈ ٹرمپ، ایلن مسک اور سٹیو جابز کو بھی نرگسیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کو اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور دعوے کرنے کی وجہ سے آج کا نرگس کہا جاتا ہے، اسی طرح ایلن مسک کا یہ خیال کہ وہ سب سے مختلف ہے اس سے بھی شبہ ہوتا ہے کہ وہ نرگسی ہے اور تو اور Apple فون بنانے والے سٹیوجابز کو بھی نرگسی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ نرگسی اپنا کام نکلوانے کے ہر حربے پر عمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

نوٹ:یہ خالصتاً ایک تحقیقی کالم ہے پاکستان کے کسی سیاسی کردار سے مطابقت محض اتفاقی ہو گی۔